محمد بن علی بن الحسین {ع} ملقب بہ باقر و کنیہ ابو جعفر، امام سجاد {ع} کے بیٹے ہیں- بعض مورخین ان کی پیدائش مدینہ منورہ میں اول ماہ رجب روز جمعہ جانتے ہیں[1] اور بعض دوسرے ماہ صفر کی تیسری تاریخ [2]جانتے ہیں- آپ {ع} کے والد امام سجاد{ع} شیعوں کے چوتھے امام ہیں اور والدہ " ام عبدا للہ" امام حسن مجتبی {ع} کی بیٹی ہیں- اس لئے ماں باپ دونوں کی جانب سے فاطمی اور علوی ہیں- [3]
امام باقر {ع} کا لقب باقر العلوم:
امام محمد بن علی {ع} کا مشہور ترین لقب " باقر العلوم " ہے،[4] جو انھیں پیغمبر اسلام {ص} نے عطا کیا ہے-[5] چونکہ امام باقر {ع} علوم کا تجزیہ اور آشکار کرنے والے ہیں، اس لئے انھیں " باقر العلوم" کہا جاتا ہے-[6] اس کے علاوہ یہ بھی کہاگیا ہے کہ حضرت {ع} کی پیشانی زیادہ سجدوں کی وجہ سے پھیلی ھوئی تھی اس لئے انھیں " باقر" کہا جاتا تھا-[7]
امام محمد باقر {ع} کا کربلا میں حضور
قیام عاشورا، تاریخ اسلام کے واقعات کا ایک اہم اور موثر ترین واقعہ ہے، جو محرم ۶۱ ہجری میں واقع ھوا ہے-
اس واقعہ میں امام محمد باقر {ع} بھی موود تھے اور آپ {ع} کی عمر چار سال تھی، اور مورخین کا اس پر اتفاق ہے، کیونکہ بہت سی ایسی روایتیں پائی جاتی ہیں، جن سے معلوم ھوتا ہے کہ امام {ع} سنہ ۶۱ سے پہلے پیدا ھوئے ہیں ، جیسے:" امام باقر {ع} سنہ ۵۷ ہجری میں مدینہ منورہ میں پیدا ھوئے ہیں-"[8]
اس کے علاوہ امام باقر {ع} سے ایک شخص نے سوال کیا کہ: کیا آپ نے امام حسین {ع} کو دیکھا ہے؟ امام {ع} نے جواب میں فرمایا: جی ہاں-[9]
امام باقر {ع} کربلا میں اپنے حضور کے بارے میں فرماتے ہیں:" میرے جد ، امام حسین {ع} قتل کئے گئے، جبکہ میں چار سال کا تھا اور مجھے ان کا قتل کیا جانا یاد ہے-"[10]
اس قسم کی روایتوں کے مطابق، امام باقر {ع} کے کربلا میں موجود ھونے کے بارے میں کوئی تاریخی ممانعت نہپیں پائی جاتی ہے، اور چونکہ آپ {ع} کی عمر بہت چھوٹی تھی، قدرتی طور پر اپنے خاندان والوں کے ساتھ زندگی گزارتے تھےاور سفر میں ان کے ساتھ تھے، چونکہ وہ کم سن تھے اس لئے تاریخ کی کتابوں میں ان کے کربلا میں موجود ھونے کا کم ذکر کیا گیا ہے[11]-
امام باقر {ع} کی امامت کے دلائل:
ائمہ اطہار{ع} کی امامت، من جملہ امام باقر {ع} کی امامت کے بارے میں شیعوں کی کتابوں میں کافی دلائل نقل کئے گئے ہیں-[12]
امام باقر {ع} کی کرامتیں اور معجزے:
امام باقر {ع} کے بہت سے معجزات اور کرامتیں نقل کی گئی ہیں کہ یہاں پرہم ان میں سے صرف دو موارد کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:
۱-نا بینا کو شفا ملنا: ابو بصیر، امام باقر{ع} کے برجستہ شاگرد تھے، اور وہ نابینا تھے، اس لئے انتہائی رنج و مصیبت سے دوچار تھے- ایک دن امام باقر{ع} کی خدمت میں آگئے اور حضرت {ع} سے سوال کیا: کیا آپ {ع} پیغمبر {ص} کے وارث ہیں؟ امام {ع} نے جواب میں فرمایا: جی ہاں: ابو بصیر نے عرض کی: کیا رسول خدا {ص} تمام انبیاء {ع} اور ان کے علوم و دانش کے وارث تھے؟ امام {ع} نے فرمایا: جی ہاں، ابو بصیر نے عرض کی: کیا آپ مردوں کو زندہ کرسکتے ہیں اور مادرزاد نا بینا کا علاج کرسکتے ہیں اور لوگ جو گھروں میں بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں، اس کی خبر دے سکتے ہیں؟ امام نے فرمایا: جی ہاں، ہم یہ سب چیزیں خدا کی اجازت سے انجام دیتے ہیں- ابو بصیر کہتے ہیں کہ یہاں پر امام باقر {ع} نے فرمایا : اے ابو بصیر قریب آجاو- میں امام {ع} کے قریب گیا- حضرت {ع} نے میری آنکھوں پر اپنے دست مبارک کو پھیر لیا- اس وقت میں نے سورج، آسمان، زمین ، عمارتوں اور جو کچھ شہر میں تھا اسے دیکھ لیا-
اس کے بعد امام {ع} نے مجھ سے فرمایا: کیا تم چاہتے ھو کہ ایسے ہی رھو اور قیامت کے دن تم سے دوسرے لوگوں کے مانند حساب لیا جائے اور خدا جو چاہے وہ ھو جائے یا اپنے پہلی حالت میں پلٹ کر حساب و کتاب کے بغیر بہشت میں داخل ھو جاوگے؟؛ ابو بصیر نے کہا : میں اپنی پہلی حالت میں پلٹنا چاہتا ھوں- امام باقر {ع} نے پھر سے اپنے دست مبارک کو ابو بصیر کی آنکھوں پر پھیر لیا اور ان کی آنکھیں پہلی حالت میں آگئیں-[13]
۲-امام باقر اور حجاج: ابو بصیر، ایک سال امام باقر {ع} کے ہمراہ مراسم حج بجا لاتے ھوئے طواف کر رہے تھے- وہ کہتے ہیں کہ: حجاج کی آوازاور تکبیروں کو سن کر تعجب کی حالت میں امام سے عرض کی:" ما اکثر الحجیج و اعظم الضجیج" کس قدر حاجی زیادہ ہیں اور شور وغل بھی زیادہ ہے ؟
یہاں پر امام {ع} نے فرمایا: "یا ابا بصیر؛ ما اقلالحجیج و اکثر الضجیج "ا اے ابو بصیر؛ کس قدر حاجی کم ہیں اور شور و غل زیادہ ہے؟
-" کیا تم چاہتے ھو کہ میں اپنی بات کو ثابت کروں اور اپنی آنکھوں سے میری بات کی حقیقت کو دیکھ لوگے؟
میں نے عرض کی: یہ کیسے ممکن ہے، میرے مولا؟؛
امام {ع} نے جواب میں فرمایا: " سامنے آجاو" میں امام باقر {ع} کے قریب گیا- امام {ع} نے اپنے دست مبارک کو میری آنکھوں پر پھیر لیا اور چند جملہ دعا پڑھی- یہاں پر میں بینا ھوگیا- امام باقر{ع} نے فرمایا: اے ابو بصیر؛ اب طواف کرنے والے حاجیوں کو دیکھ لو، جب میں نے اجتماع پر نظر ڈالی، بہت سے لوگوں کو بندروں اور سوروں کی شکل میں دیکھا جو کعبہ کے گرد گھوم رہے تھے اور با ایمان افراد اور حقیقی حجاج ان کے درمیان تاریکی میں نور کے مانند چمکتے تھے- میں نے عرض کی: اے میرے مولا؛ آپ نے صحیح فرمایا اور آپ کی بات کی حقیقت مجھے ثابت ھوئی-" ما اقل الحجیج و اکثر الضجیج" کس قدر حاجی کم ہیں اور شور وغل زیادہ ہے" اس کے بعد حضرت نے پھر سے ایک دعا پڑھی اور میری آنکھیں پہلی حالت میں آگئیں-[14]
امام باقر {ع} کا علمی مقام اور شاگردوں کی تربیت:
امام باقر{ع} نے اپنی امامت کے دوران، اسلامی ثقافت پر ہاوی نا پ۰- نا گفتہ بہ حالات کے باوجود، علم و معارف اسلامی کے سلسلہ میں ایک وسیع اور سنجیدہ تحریک کی داغ بیل ڈالی- یہاں تک کہ یہ وسیع تحریک ایک عظیم اور برجستہ اسلامی یونیورسٹی کی تشکیل اختیار کرگئی، جس کی عظمت اور کارکردگی امام صادق{ع} کے زمانے میں کمال تک پہنچی-
امام باقر{ع} نے حوزہ درس و تدریس منعقد کرکے کج فکریوں اور گمراہیوں کے ساتھ مبارزہ و مقابلہ کیا اور علمی چیلینجوں کا جواب دینے کی کوشش کی، اور قرآن مجید کی تعلیمات پر مبنی معارف و اصلی اسلام کے اصول کی بنیادوں کو مستحکم کیا اور اس کے علاوہ فقہی اور اعتقادی ابواب کی قرآن مجید کے مطابق تحقیق کی اور اپنے زمانہ کے دانشوروں اور عالموں کی تربیت کرکے ایک عظیم علمی تحریک کی بنیاد ڈالی- اور اس طرح " جابر بن یزید جعفی" جیسے دانشوروں کی تربیت کی، جب کبھی وہ کسی علم کے بارے میں بات کرنا چاہتے تھے، علم و دانش سے آراستہ ھونے کے باوجود، کہتے تھے:" خدا کے جانشین اور انبیاء {ع} کے علم و دانش کے وارث محمد بن علی {ع} نے میرے لئے یوں فرمایا ہے-[15]" اور اپنی علمی حیثیت کو ناچیز جاننے کی وجہ سے امام {ع} کے مقابلے میں اپنا کوئی نظریہ پیش نہیں کرتے تھے-
ابو اسحاق سبیعی،اس زمانہ کے دوسرے دانشور تھے،جو امام {ع} کے علمی نظریہ کو اس قدر صحیح جانتے تھے کہ جب ان سے کسی مسئلہ کے بارے میں پوچھا جاتا تھا، جواب کو امام کی زبان سے دیتے تھے اور کہتے تھے:" وہ ایک ایسے دانشور ہیں کہ میں نے { علم میں} ان کے برابر کسی کو نہیں پایا ہے-[16]"
امام باقر {ع} کے شاگرد:
امام باقر {ع} کے مکتب میں بعض نامور اور ممتاز شاگردوں نے تربیت پائی ہے کہ ان میں سے بعض حسب ذیل ہیں:
۱-ابان بن تغلب: ابان اپنے زمانہ کی علمی شخصیت تھے، وہ تفسیر، فقہ، قرائت اور علم لغت میں یہ طولی رکھتے تھے- ابان کی علمی صلاحیت ایسی تھی کہ امام باقر{ع} نے انھیں فرمایا کہ:" مدینہ کی مسجد میں بیٹھ کر لوگوں کے لئے فتوی دیدو، کیونکہ مجھے پسند ہے کہ لوگ ہمارے شیعوں میں تمھارے جیسے افراد کو دیکھ لیں-[17]"
۲-زرارہ: زرارہ بن اعین شیبانی، امام باقر {ع} اور امام صادق{ع} کے بزرگ ترین صحابیوں میں سے تھے، انھوں نے ان دو اماموں سے روایتں نقل کی ہیں- زرارہ امام باقر {ع} کے ہاں عظیم مقام رکھتے تھے، وہ اصحاب اجماع میں شمار ھوتے تھےکہ ان کی وثاقت اور راست گوئی، امام باقر{ع} اور امام صادق {ع} کے صحابیوں میں اجماع و اتفاق کا درجہ رکھتی تھی- اگر چہ ان کی مذمت میں بھی بعض روایتیں نقل کی گئی ہیں، لیکن مجموعی روایات کے نتیجہ سے معلوم ھوتا ہے وہ امام باقر {ع} اور امام صادق {ع} کے عظیم صحابیوں میں سے تھے-[18]
۳-محمد بن مسلم ثقفی: محمد بن مسلم ثقفی، امام باقر {ع} اور امام صادق {ع} کے مشہورترین تربیت یافتہ دانشور تھے ، جنھوں نے حقیقی اسلامی ثقاف اور اہل بیت {ع} کے تابناک تعلیمات کی ترویج میں بیشک کلیدی رول ادا کیا ہے[19]-
امام باقر {ع} کے ہم عصراموی خلفائے :
امام باقر{ع} کی امامت کے دوران ولید بن عبدالملک، سلیمان بن عبدالملک ، عمر بن عبدالعزیز، یزید بن عبدالملک اور ھشام بن عبدالملک نامی خلفائے بنی امیہ کا دور تھا[20]-
امام باقر {ع} کے مبارزہ کے طریقے:
امام باقر{ع} نے دینی قدروں کے احیاء اور ان قدروں کے تحفظ کے لئے فرصت کے مطابق مندرجہ ذیل طریقوں سے استفادہ کیا ہے:
الف- اسلامی حاکم کے فرائض بیان کرنا:
امام باقر {ع} اسلامی حاکموں کے فرائض بیان کرنے میں شدید تنقید کو مدنظر رکھتے تھے اور ان کے غیر شرعی اقدامات کے بارےمیں انھیں انتباہ فرماتے تھے، جیسا کہ فرماتے ہیں:" «بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسَةِ أَشْيَاءَ عَلَى الصَّلَاةِ وَ الزَّكَاةِ وَ الْحَجِّ وَ الصَّوْمِ وَ الْوَلَايَة»؛
" اسلام پانچ چیزوں پر مبنی ہے: نماز، زکواۃ، حج، روزہ، ولایت، زارارہ نے پوچھا: ان میں سے کونسی چیز افضل ہے؟ امام {ع} نے فرمایا: «الْوَلَايَةُ أَفْضَلُ لِأَنَّهَا مِفْتَاحُهُنَّ وَ الْوَالِي هُوَ الدَّلِيلُ عَلَيْهِن»؛ " ولایت برتر ہے، کیونکہ ان سب کی کلید ہے اور والی { امام} ان کی راہنمائی کرنے والا ہے-[21]"
ب- طاغوتی حکومت سے تعاون کی ممانعت:
امام {ع} ہمیشہ مومنوں کو طاغوتی حکام سے تعاون کرنےکی ممانعت کرتے تھے اور بہر صورت اپنے اس پیغام کو امت کے کانوں تک پہنچاتے تھے-
ایک شخص نے امام باقر {ع} سے سوال کیا: میں حجاج کے زمانہ سے مسلسل گورنر تھا ، کیا میرے لئے توبہ کی گنجائش ہے؟ امام {ع} نے کوئی جواب نہیں دیا، میں نے دوبارپوچھا، حضرت {ع} نے جواب میں فرمایا: نہیں، جب تک نہ ہر حقدار کے حق کو ادا کرو گے-[22]"
عبدالغفار بن قاسم نامی ایک شیعہ کہتا ہے:" میں نے امام باقر{ع} سے کہا:" میرے سلطان کے قریب جانے اور دربار میں رفت و آمد کرنے کے بارے میں آپ {ع} کا نظریہ کیا ہے؟ امام {ع} نے فرمایا:" میں تیرے لئے اس کام میں مصلحت نہیں سمجھتا ھوں- " میں نے کہا:" کبھی میں شام جاتا ھوں اور ابراھیم بن ولید کے پاس جاتا ھوں-" فرمایا:" اے عبدالغفار؛ سلطان کے پاس رفت و آمد کے تیرے لئے تین منفی نتائج ہیں:" تیرے دل میں دنیا کی محبت پیدا ھوتی ہے، موت کو فراموش کرتے ھو اور جو کچھ خداوند متعال نے تیری قسمت میں رکھا ہے اس سے ناراض ھوتے ھو-"
میں نے عرض کی:" اے فرزند رسول خدا {ص}؛ میں عیال بار ھوں اور وہاں جانے میں میرا مقصد تجارت ہے-" فرمایا:" خدا کے بندے؛ میں تجھے ترک دنیا کی دعوت کرنا نہیں چاہتا ھوں،بلکہ چاہتا ھوں کہ گناھوں کو ترک کرو ، ترک دنیا فضیلت ہے، لیکن ترک گناہ فریضہ اور واجب ہے اور تم ایسے حالات میں ھو کہ فضائل کو حاصل کرنے کی بہ نسبت واجبات انجام دینے کی زیادہ ضرورت ہے-[23]"
امام باقر {ع} ایک جانب سے قیام زید جیسے، حکومت مخالف انقلابوں کی تائید کرتے تھے اور دوسری جانب سے، مناسب موقعوں پر خلفاء کے ساتھ براہ راست مقابلہ کرتے تھے-
امام باقر {ع} نے فرمایا ہے:" جو بھی کسی ظالم بادشاہ کے پاس جائے، اور اسے تقوائے الہی کی رعایت کرنے کا حکم دے، اور اسے ڈرائے اور موعظہ کرے، اسے تمام جن و انس کے اعمال کا جزا ملے گا-[24]"
اس کے علاوہ امام باقر {ع} ظالم حکام کی مشروعیت کو زیر سوال قرار دیتے ہیں اور ان کے خلاف انقلاب کی راہ ہموار کرتے ہیں فرماتے ہیں:" ائمہ حق اور ان کے پیروکار دین خدا پر پابند ہیں اور ظالم حکام ، دین خدا اور حق سے منحرف و گمراہ ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں، ان کے انجام پانے والے اعمال اس راکھ کے مانند ہیں جو تند ھواوں کے جھونکوں سے ھوا میں اڑتی اور نابود ھوتی ہے، یہ ایک بڑی سخت گمراہی ہے-[25]"
ج- تقیہ[26]
امام باقر {ع} تقیہ کا اس قدر اہتمام کرتے تھے کہ فرمایا کرتے تھے:" تقیہ، میرا اور میرے آبا و اجداد کا دین ہے، جو تقیہ نہ کرتا ھو وہ دین بھی نہیں رکھتا ہے"[27]-
امام باقر{ع} کی شہادت
امام محمد باقر {ع} نے مشہور مورخین کے مطابق ۵۷ سال کی عمر میں سات ماہ ذی الحجہ سنہ۱۱۴ [28] ہجری کو رحلت فرمائی اور قبرستان بقیع میں اپنے والد بذرگوار { امام سجاد} اور اپنے چچا{ امام حسن مجتبی} کے پہلو میں دفن کئے گئے[29]- آپ {ع} کی شہادت ھشام بن عبدالملک کی خلافت کے زمانہ میں[30] اسی کے حکم سے واقع ھوئی[31]-
[1] شیخ مفید، مسار الشیعة، ص 56، كنگره شیخ مفید، قم، طبع اول، 1413 ھ ؛ طبرسی، فضل بن حسن، إعلام الورى بأعلام الهدى، ج 1، ص 498، مؤسسه آل البیت، قم، طبع اول، 1417ق؛ ابن حاتم شامی، جمال الدین یوسف، الدر النظیم فی مناقب الأئمة اللهامیم، ص 603، جامعه مدرسین، قم، طبع اول، 1420 ھ ؛ طبری، محمد بن جریر بن رستم، دلائل الإمامة، ص 215، بعثت، قم، طبع اول، 1413 ھ ؛ طبری، عماد الدین حسن بن على، مناقب الطاهرین، ج 2، ص 629، سازمان و انتشارات، تهران، طبع اول، 1379ش؛ علامه مجلسی، بحار الأنوار، ج 46، ص 212، دارالکتب الاسلامیة، تهران، طبع دوم، 1363ش. طبع ھ عنوان: ملاحظہ ہو: ایضا
[2] شافعی، محمد بن طلحه، مطالب السئول فی مناقب آل الرسول، ص 277، البلاغ، بیروت، طبع اول، 1419 ھ ؛ كاشفى سبزوارى، ملاحسین، روضة الشهداء، ص 512، نوید اسلام، قم، طبع سوم، 1382ش؛ شبراوی، جمال الدین، الإتحاف بحب الأشراف، ص 279، دارالکتاب، قم، طبع اول، 1423 ھ ؛ حسینى عاملى، سید تاج الدین، التتمة فی تواریخ الأئمة علیهم السلام، ص 93، بعثت، قم، طبع اول، 1412 ھ ؛ قرشی، باقر شریف، حیاة الإمام محمد الباقر علیه السلام، ج 1، ص 20، دار البلاغة، بیروت، طبع اول، 1413 .
[3] مغربی، قاضى نعمان، المناقب و المثالب، ص 327، اعلمى، بیروت، طبع اول، 1423 ھ ؛ إعلام الورى بأعلام الهدى، ج 1، ص 498؛ الدر النظیم فی مناقب الأئمة اللهامیم، ص 603؛ شبلنجی، مؤمن بن حسن، نور الأبصار فی مناقب آل بیت النبی المختار صلى الله علیه و آله و سلم، ص 289، منشورات شریف رضی، قم، بی تا؛
[4] طبرسی، فضل بن حسن، تاج الموالید، ص 91، دارالقار، بیروت، طبع اول، 1422 ھ ؛ حموی، محمد بن اسحاق، أنیس المؤمنین، ص 123، بنیاد بعثت، تهران، 1363ش؛ بحارالانوار، ج 46، ص 216؛ التتمة فی تواریخ الأئمة علیهم السلام، ص 93.
[5] شیخ مفید، الإرشاد فی معرفة حجج الله على العباد، ج 2، ص 159، كنگره شیخ مفید، قم، طبع اول، 1413 ھ ؛ شیخ عباس قمى، منتهى الآمال فی تواریخ النبی و الآل، ج 2، ص 1263، دلیل ما، قم، طبع اول، 1379ش؛ عطاردی، عزیز الله، مسند الإمام الباقر أبی جعفر محمد بن على علیهما السلام، ج6، ص 289، عطارد، تهران، طبع اول، 1381ش.
[6] الإرشاد فی معرفة حجج الله على العباد، ج 2، ص 159؛ بحارالانوار، ج 46، ص 221.
[7] سبط بن جوزى، تذكرة الخواص، ص 302، منشورات الشریف الرضى، قم، طبع اول، 1418ق؛ المرعشی التستری،القاضى نور الله، إحقاق الحق و إزهاق الباطل، ج 12، ص 162، مكتبة آیة الله المرعشى النجفى، قم، طبع اول، 1409ق. سبط بن جوزى، تذكرة الخواص، ص 302، منشورات الشریف الرضى، قم، طبع اول، 1418 ھ ؛ المرعشی التستری،القاضى نور الله، إحقاق الحق و إزهاق الباطل، ج 12، ص 162، مكتبة آیة الله المرعشى النجفى، قم، چاپ اول، 1409 ھ.
[8] بحار الأنوار، ج 46، ص 212.
[9] كلینى، محمد بن یعقوب، الكافی، محقق و مصحح: غفارى على اكبر، آخوندى، محمد، ج 4، ص 223، دار الكتب الإسلامیة، تهران، طبع چهارم، 1407 ھ.
[10] احمد بن أبى یعقوب، تاریخ یعقوبى، ج 2، ص 320، بیروت، دار صادر، بى تا.
[11] عنوان:«حضور امام سجاد و امام باقر (ع) در کربلا»، سؤال 20433.سے اقتباس-
[12] عنوان: «حضور امام سجاد و امام باقر (ع) در کربلا»، سؤال 20433. سے اقتباس-
[13] إعلام الورى بأعلام الهدى، ج 1، ص 503 و 504.
[14] ابن شهر آشوب مازندرانى، المناقب، ج 4، ص 184، مؤسسه انتشارات علامه، قم، 1379 ھ.
[15] الإرشاد فی معرفة حجج الله على العباد، ج 2، ص 160.
[17] علوى عاملى، احمد بن زین العابدین، مناهج الأخیار فی شرح الإستبصار، ج 2، ص 138، مؤسسه اسماعیلیان، قم، طبع اول، 1399 ھ ؛ شیخ حر عاملى، محمد بن حسن، الإیقاظ من الهجعة بالبرهان على الرجعة، محقق و مصحح: رسولى، هاشم، جنتى، احمد، ص 262، انتشارات نوید، تهران، طبع اول، 1362ش.
[18] ر.ک: نمایه «زراره و امامان»، سؤال 19464.
[19] ر.ک: سبحانی، جعفر، موسوعة طبقات الفقهاء، ج 2، ص 521 – 523، مؤسسه امام صادق علیه السلام، قم، طبع اول، 1418 ھ.
[20] إعلام الورى بأعلام الهدى، ج 1، ص 498.
[21] الكافی، ج2، ص 18.
[22] ایضا ، ج2، ص،331.
[23]بحار الانوار، ج 72، ص 377. بحار الانوار، ج 72، ص 377.
[24] ایضا ، ص 378.
[25] ابن أبی زینب نعمانی، محمد بن ابراهیم، الغیبة، محقق و مصحح: غفارى، على اكبر، ص 128 و 129،نشر صدوق، تهران، طبع اول، 1397 ھ.
[26] : نمایه های «دلایل تقیه کردن ائمه(ع)»، سؤال 1779؛ «تقیه مداراتی»، سؤال 15755.
[27] شیخ حرّ عاملى، وسائل الشیعة، ج 16، ص 204، آل البیت، قم، طبع اول، 1409 ھ .
[28] إعلام الورى بأعلام الهدى، ج 1، ص 498؛ المناقب، ج 4، ص 210؛ فتال نیشابورى، روضة الواعظین و بصیرة المتعظین، ج 1، ص 468، دلیل ما، قم، طبع اول، 1423 ھ ؛ مناقب الطاهرین، ج 2، ص 629؛ بحارالانوار، ج 46، ص 212؛ التتمة فی تواریخ الأئمة علیهم السلام، ص 96.
[29] كافى، ج 1، ص 469.
[30]. إعلام الورى بأعلام الهدى، ج 1، ص 499؛ منتهى الآمال فی تواریخ النبی و الآل، ج 2، ص 1328.
[31] میر لوحی، كفایة المهتدی فی معرفة المهدی( ع)، ص 335، دار التفسیر، قم، طبع اول، 1426ق.